سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں تعارف۔۔سورہ عصر

مقدمہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق فرمایا اور صرف یہی پر ہی بس نہ کیا بلکہ اسے اشرف المخلوقات بنا کر شعورو علم کی وہ دولت جو کسی دوسری مخلوق کے پاس نہ تھی ،سے سرفراز فرمایا۔تاکہ وہ جانورںکی طرح اندھا دھند ایک ہی ڈگر پر نہ چلے بلکہ غوروفکر سے کام لے کر اپنے لیے سیدھے راستے کا انتحاب کرے۔۔۔۔معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوا وہ  بلکہ وہ خالق کائنات جو ستر ماؤں سے زیادہ شفیق ہے،جانتا تھا کہ عقل عیار ہے ۔ڈگمگائے گی ،شکوک وشبہات کی  کشتی میں ہچکولے کھائے گی۔تب بھی بہے سوں کو منزل نسیب نہیں ہو گی۔چنانچہ عقل کو جلا بخشنے کے لیے اس نے "علم"جیسی لازوال دولت کو ہتھیار بنایا  اور اس مقسد کے لیے انبیاء ؑ مبعوث فرمائے ،کتابیں نازل کیں۔تاکہ حضرت انسان کو منزل نسیب ہو۔
تاریخ گواہ ہے جب تک مسلمانوں نے راہ ہدایت کے لیے "قرؤن "جیسے سر چشمے کو تھامے رکھا۔دین اور دنیا کی تمام راحتیں ،تمام کامیابیاں اور سربلندیاں ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہی اور جسے ہی انھوں نے اسے چھوڑا ،جہالت و گمراہی،ضلالت و گمنامی کے اندھیرے ان کا مقدر بن گئے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
 (اقبال)
الجزائر پر ناجائز قبضہ کی صد سالہ تقریب  کے موقع پر فرانسیسی گورنر نے کہا":
"جب تک الجزائری مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں گے اور عربی زبان بولتے رہیں گے۔ہم ان پر غلبہ نہیں پا سکتے ،لہزا ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم قرآن کریم کا وجود مٹا دیں،مسلمانوں کو قرآن سے محروم کر دیں۔اور ان کی زبانوں سے عربی نکال کر اس کا قلع قمع کر دیں۔"[1]
لہذا عربی زبان سیکھنا اور قرآن کو سمجھنا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔کیونکہ شریعت نے ان پر ایک قوی و ملی فریضے کے طور پر عائد کیا ہے۔زیر نظر مقالہ اسی فریضے کی ایک کڑی ہے۔
سورہ عصر امام شافعی ؒ کے قول"اگر لوگ اس میں غوروتدبر کریں تو یہ ان کی نجات کے لیے کافی ہو" کے عنوان پر مقالہ لکھنے پر میں اللہ رب العزت کی بے حد شکر گزار ہوں۔کہ اس نے مجھے یہ سعادت بخشی کہ میں قرآن پاک  کی کسی سورت کا تفصیلا مطالعہ کر سکوں۔بصورت دیگر کسی سورت کو اتنی گہرائی سے پڑھنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔مقالے کے تفسیر مطالعہ کے دوران مجھے علم ہوا کہ کہ قرآن پاک پر لکھی جانے والی تفاسیر کا اتنا سیع ذخیرہ موجود ہے اور یہ ادب اتنا ضخیم ہے کہ مجھے اس کو سمیٹنے میں کئی سال لگ جاتے۔چنانچہ میں نے چند اردو اور عربی تفاسیر سے استفادہ کیا ہے۔
فصاحت و بلاغت قرآن پاک کی صفت ہے۔سورتہ العصر کی آیات تو تین ہیں مگر معنی کا بحر بے کراں اپنے اندر سمیٹے ہوئے۔ہر ہر آیت اپنے اندر اتنی وسیع ہے کہ اس پر الگ مقالہ لکھا جا سکتا۔
اس مقالہ میں نے مضامین کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔ہر باب اور اس کی فصول کے نام سورت کی آیات کی مناسبت سے ترتیب دیے گئے ہیں۔
اللہ رب العزت کی مشاء ومنشاء کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ میں اس مقالہ کو مکمل کر پاتی۔اللہ نے کجھے توفیق بخشی اور اس قابل بنایا  کہ میں اسے مکمل کر سکوں۔اللہ میری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرمائے۔س
باب اول:            پہلے باب میں سورت کا تعارف ،معنی ومفہوم،وجہ تسمیہ۔سورت کی اہمیت و فضیلت پر بحث کی گئی ہے۔
باب دوئم:            اس میں سورت کے مضامین کو زیر بحث لاکر ثابت کیا گیا ہے کہ امام شافعیؒ کا قول کہ اگر قرآن نازل نہ ہوتا صرف سورتہ عصر نازل ہو جاتی تو انسانیت کی نجات کے لیے کافی تھی۔


مقالہ نگار:روبینہ شاہین



سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول کی نظر میں
تعارف۔۔سورہ  عصر
باب نمبر۱۔۔۔تعارفی بحث
فصل اول:لغوی مفہوم
سورتہ:
سورت کے لغوی معنی"بلندی"یا "بلند"کے ہیں۔دوسرے معنی فصیل ،شہر،پناہ،دیوار کے ہیں۔جس طرح دنیا کی دوسری کتابیہں مختلف ابواب مین تقسیم ہوتی ہیں اس طرح قرآن کے ہر باب کو "سورت"کہتے ہیں۔گویا ہر سورت ایک بلند منزل کا نام ہے۔گویا وہ فصیل شہر کی طرح ایک ایک مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔لفظ سورت کا استعمال قرآن میں سات مرتبہ ہوا ہے۔کل سورتیں"۱۱۴"ہیں۔
لفظ سورت "قرآن"میں:
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ[8]  
اور اگر تمھیں شک ہے اس چیز کے بارے میں جو ہم نے نازل کیاپنے بندے پرتو بس لے آّو اس جیسی کوئی سورت"
يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ [2]ۚ
منافقین ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو انھیں بتا دے جو ان کے دلوں میں ہے"
وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّـهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ [3]
"اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاو اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے مقدر والے آپ سے اجازت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دو کہ ہم بیٹھ رہ جانے والوں کے ساتھ ہو جائیں۔"
وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا ۚصَرَفَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ[4]
"جب اتاری جاتی ہے کوئی سورتہ ان میں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے۔کیا تمھیں کوئی۰مسلمان)دیکھتا ہے۔پھر وہ پھر جاتے ہیں اللہ نے ان کے دل پھیر دئیے ہیں کیونکہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے"
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّـهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[5]
"آپﷺ کہہ دیں پس تم اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ،اور جسے تم بلا سکو،بلا لو،اللہ کے سوا۔"
سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنْزَلْنَافِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ[6]
"یہ ایک سورت ہے جو ہم نے نازل کی اور اس کے (احکام)کو لازم کیا اور ہم نے اس میں  واضح آیتیں تاکہ تم یاد رکھو"

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ[7]ۖ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ
                                                                                                                                                                                          
"جو لوگ ایمان لائے کہتے ہیں کہ (جہاد کی) ایک سورت کیوں نہ اتاری گی پس جب محکم سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں ذکر کیا جاتا ہے لڑائی کا"
یہ تو تھا قرآن مجید میں لفط سورت کا استعمال  جو بعینہ انہی معنوں میں استعما ل ہوا ہے جن معنوں میں عام طور پر سورت کو لیا جاتا ہے۔
علامہ جال الدین سیوطیؒ نے  "سورت" کے لفط پر یوں تحقیق کی ہے:
"عتبیٰ کا قول ہے کہ سورت کا لفظ بھی ہمزہ کے ساتھ اور بغیر ہمزہ دونوں طرح آیا ہے۔جس نے اس کو مہموز مانا ہے وہ اس کا ماخذ "السور"سے "اسارت"یعنی افضلت کو قرار دیتے ہیں۔۔
سور برتن میں رہ جانے والی پینے کی چیز کو کہتے ہیں۔گویا کہ سورتہ قرآن کا ایک ٹکڑا ہے۔مگر جس شخص کے نزدیک مہموز نہیں اس نے بھی اس کو مذکورہ بالا معنوں میں داخل کیا ہے۔اور ہمزہ کو سہیل کا ہمزہ قرار دیا ہے۔اور بعض لوگ سورت کو سورتہ النباء یعنی عمارت کے ایک قطعہ سے تشبہیہ دیتے ہیں۔۔۔اس سے یہ مدعا ہے کہ جس طرح مکان منزل بمنزل بنتا ہے اسی طرح سورتوں سے مل کر قرآن اور مصحف مکمل ہوا اور یہ بھی بتایا گیا ہے۔کہ سورت کو سورتہ اس لیے کہا جاتا ہے۔کہ وہ کلام اللہ ہونے کی وجہ سے مرتفع ہے اور سورت بلند منزلت کو کہتے ہیں،بالغہ زیبانی کہتا ہے:
الم تر ان اللہ اعطاک سورتہ
تری کل ملکِِ حولھا یتذبذب
یا تو نہیں دیکھتا کہ خدا نے تجھے وہ بلند منزلت دی ہے جس کے گرد ہر ایک بادشاہ حفاظت کرتے دیکھا جاتا ہے۔"
بعض علماء نے یہ بھی فرمایا ہے  یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے  کہ سورتیں ایک دوسرے پر مرکب ہیں اور اس طرح  سورتہ کا ماخذ "تسور"اوپر چڑھنے کے معنی میں ہوگا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے "اذتسوروالمحراب"بعض علماء نے ا بات کو بھی ناپسند کیا ہے کہ سورتہ کو فلاں سورتہ کرکے کہا جائے کیونکہ طبرانی اور بہیقی نے انس ؓ سے مرفوعا روایت کی ہے  کہ تم لوگ سورتہ البقرہ،سورہ آل عمران اور سورتہ النساء یا غرضیکہ اس طرح سارے قرآن کا نام نہ لیا کروبلکہ یوں کہو کہ وہ سورتہ النساء میں بقرہ کا ذکر آیا ہے اور وہ سورتہ النساء میں آل عمران کا ذکر آیا ہےاور اسی طرح سارے قرآن کو کہنا چاہیے۔صحیح بخاری میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے  کہا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جس پر سورتہ البقرہ نازل ہوئی اوراسی وجہ سے جمہور نے اسے ناپسند نہیں کیا ہے۔"[8]
العصر:
قاموس الالفاظ الکریم میں "عصر "کے لغوی معنی یہ بیان کیے گئے ہیں۔
"اَ عصرُ،نچوڑنا ،دبانا
عصر،یعصرُ،عصراََ   
انگور وغیرہ کا نچوڑنا،
العصر:اسم کا زمانہ،وقت کی غیر متعین مقدار جس میں لوگ وفات پاتے ہیں اور نا بود ہو جاتے ہیں۔(ولیم لین)[9]
اصطلاحی معنی:
تدبر قرآن میں عصر کے معنی یہ بتائے گے ہیں۔
'''عصر' کے معنی زمانہ کے ہیں۔ جس طرح لفظ 'دهرٌ' میں زمانہ کی مجموعیت کا اعتبار ہے اسی طرح لفظ 'عصرٌ' میں اس کے گزرنے اور اس کی تیز روی کی طرف اشارہ ہے چنانچہ اس کا غالب استعمال گزرے ہوئے زمانہ ہی پر ہوتا ہے۔ امرؤ القیس کا مصرعہ ہے:

و هل ينعمن من کان فی العصر الخالی
(اور اب ان کے لیے کیا مبارکی ہے جو گزرے ہوئے زمانوں میں ہوئے)

عبید ابن الابرص نے کہا ہے:

فذاك عصر و قدارانی
يحملنی بازل شبوب
(وہ بھی زمانہ تھا جب میں اپنے کو دیکھتا کہ ایک جوان اور خوبصورت اونٹنی پر سوار ہوں)''[10]
تفسیر نمونہ میں عصر کے حوالے سے درج ذیل اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
      عصر “ کا لفظ اصل میں نچوڑ نے کے معنی میں ہے ، اس کے بعد اس کا وقت عصر پر اطلاق ہونے لگا کیونکہ اس میں زلزلہ کے پروگراموں کو لپیٹ کر مختصر کردیا جاتا ہے ۔ 
اس کے بعد یہ لفظ مطلق ” زمانہ “ اور تاریخ بشرکے دور یازمانے کے ایک حصہ ، جیسے ظہور اسلام اور پیغمبر اکرم کے قیام کے زمانے ، اور اسی قسم کے دوسرے زمانوں کے معنی میں استعمال ہواہے ، اسی لیے اس قسم کی تفسیر میں مفسرین نے بہت زیادہ احتمال دیے ہیں ۔ 
۱۔ بعض اس اسے اسی وقت ” عصر “ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، اس قرینہ سے کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں دن کے آغاز کی قسم کھائی گئی ہے مثلاً: ”والضحیٰ“( ضحیٰ آیہ۱) یا ” و الصبح اذااسفر“ ( مدثر۔ ۳۴)
یہ قسم اس اہمیت کی بناء پر ہے جو دن کے اس موقع کو حاصل ہے کیونکہ یہ وقت انسانوں کی حیات اور نظام زندگی کے خاتمے کا وقت ہوتا ہے ، دن کے کام اپنے انجام کو پہنچتے ہیں ، پرند و چرند اپنے اپنے آشیانوں اور ٹھکانوں کو لوٹتے ہیں ، سورج افق مغرب میں اپنا سر چھپالیتا ہے اور فضا بتدریج تاریک ہوتی چلی جاتی ہے ۔ 
یہ اختتام اور تغیر انسان کو خدا کی لایزال قدر ت کی طرف جو اس نظام پر حاکم ہے متوجہ کرتا ہے اور حقیقت میں یہ توحید کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور پروردگار کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے جو قسم کے لائق ہے ۔ 
۲۔بعض دوسروں نے اسے تمام زمانے اور تاریخ بشریت کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جو در سہا ئے عبرت، ہلادینے والے حوادث اور بیدار کرنے والے واقعات سے پر ہے ، اور اسی بناء پر ایسی عظمت رکھتا ہے کہ خدا کی قسم کے لائق ہے ۔ 
۳۔ اور بعض نے زمانہ کے ایک خاص حصہ کو ، جیسے پیغمبر اکرم کے قیام کا زمانہ یا مہدی علیہ السلام کے قیام کا زمانہ ، جو تاریخ بشر میں خصوصیت اور مخصوص عظمت کا حامل ہے ، مراد لیا ہے اورقسم کو اسی کے بارے میں سمجھے ہیں ۔ ۱
۴۔ اور بعض اس لفظ کے لغوی ریشہ اور جڑ بنیاد کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے اور اس قسم کو ان مشکلات اور دشواریوں کے بارے میں سمجھتے ہیں جو انسانوں کی طویل زندگی میں رونما ہوتے ہیں ، انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں، انہیں خدا ئے عظیم کی یاد دلاتے ہیں اور روحِ استقامت کی پرورش کرتے ہیں ۔ 
۵۔ بعض اسے کامل انسانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو عالم ہستی اور جہانِ خلقت کا نچوڑ ہیں ۔
۶۔ اور آخر میں بعض اسے ” نماز عصر“ کے بارے میں سمجھتے ہیں ، اسی خصوصی اہمیت کی بناء پر جو اسے باقی نمازوں میں حاصل ہے کیونکہ وہ ” صلاة وسطی“ جس کے لیے قرآن میں خاص قسم کی تاکید کی گئی ہے نماز عصر کو سمجھتے ہیں ۔
اگر چہ اوپر والی تفاسیر آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں، اور ممکن ہے کہ وہ سب ہی آیت کے معنی میں جمع ہوں ، اور ان تمام اہم امور کی قسم کھائی ہو ، لیکن ان سب میں ، سب سے زیادہ مناسب ، عصر کو زمانہ اور تاریخ بشرکے معنی لینا ہی نظر آتا ہے ۔ 
''اس سے معلوم ہوا کہ لفظ 'عصرٌ' ایک طرف زمانہ گزشتہ کے احوال و واقعات یاد دلا رہا ہے دوسری طرف اس کی مخصوص صفت تیز روی اور برق رفتاری کی طرف بھی متوجہ کر رہا ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کی طرف اشارہ سے ہمارے سامنے دو اہم نتائج آتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے ان کے اعمال کے اعتبار سے نافذ ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم زمانہ سے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی تیز روی اور برق رفتاری ہے، زیادہ سے زیادہ مستعدی سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔''[11]
مقام نزول:
تفسیر حقانی میں ہے
"یہ سورت بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی اور ابن عباس ؓ کا بھی یہی قول ہے۔صرف قتادہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں نازل ہوئی"[12]
تفسیر ابن عباسؓ میں ہے۔
"یہ پوری سورت مکی ہے۔"[13]
تفہیم القرآن میں ہے
"اگرچہ مجاہد ،قتادہ اور مقاتل نے اسے مدنی کہا ہے۔لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اسے مکی قرار دیتی ہے۔اور اس کا مضمون یہ شہادت دیتا ہے  کہ یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔جب اسلام کی مختصر اور انتہائی دل نشین فقروں میں بیان کیا جاتا تھا ،تاکہ سننے والے ایک فعہ ان کو سن کر بھولنا بھی چاہیں تو نہ بھول سکیں اور وہ آپ سے آپ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جائیں۔"[14]
سورتہ کی تعداد،آیات اور رکوع:
تفسیر معانی القرآن میں ہے۔
"اس میں تین آیات ،ایک رکوع،۱۴ کلمات اور ۷۴ حروف ہیں"[15]
تفسیر ابن عباس میں ہے
"اس کی تین آیات ،چودہ کلمات اور اڑسٹھ حروف ہیں"[16]
 سورت کا   موضوع:
یہ سورت انتہائی جامع  اور مختصر کلام کا بے نظیر نمونہ ہے۔دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت مندی اور بد بختی کے اسباب کا ذکر اس سورت کا موضوع ہے۔سید مودودیؒ لکھتے ہیں
"یہ  سورت جامع اور مختصر کلام کا بے نظیر نمونہ ہے۔اس کے اندر جچے تلے الفاظ میں  معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے۔جس کو بیان کرنے کا حق پوری کتاب میں بھی مشکل سے ادا کیا جا سکتا ہے۔اس میں دو ٹوک طریقے سے بتا دیا گیا ہے  کہ انسان کی فلاح کا راستہ کون سا ہے؟اور اس کی تباہی اور بربادی کا راستہ کون سا؟امام شافعی ؒ نےبالکل صحیح کہا ہے کہ اگر لوگ اس سورتہ پر غور کر لیں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔"[17]
اہمیت و فضیلت:
تفسیر کمالین میں ہے۔
"من قراء سورتہ العصر غفراللہ لہ و کان ممن تواصوا بالحق  و تواصوا بالصبر"
"جو شخص سورہ عصر پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور حق کی نصیحت کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں شمار ہو گا"
تفسیر روح المعانی میں ہے۔
"فقد روی عن الشافعی علیہ الرحمہ انہ قال لو لم ینزل غیر ھذہ اسورتہ الکفت الناس لانھا شملت جمیع علوم القرآن وآخرج طبرانی فی الاوسط،والبہیقی فی  شعب،عن ابی حذیفہ وکانت لہ صحیحہ قال کان امرجلان عن اصحاب رسول اللہ ﷺ اذا التقیا لم یتفرقا حتی یقراء احدھما  علی الاخر سورتہ (والعصر)تم یسلم احدھما علی الآخر۔"[18]
تفسیر ابن کثیر میں ہے
"آئمہ تفسیر نے ذکر کیا ہے کہ عمروبن عاص مسیلمہ کذاب کے پاس  گئے ،یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت  تو ہو چکی تھی مگر عمرو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے،مسیلمہ نے عمرو ؓ سے پوچھا کہ آج کل تمھارے ساتھی پر کیا نازل ہوا ہے؟عمرو نے جواب دیا کہ آپ پر ایک مختصر مگر بہت ہی بلغ سورت ناز ہی ہوئی ہے۔اس نے پوچھا  کہ وہ کیا ہے؟تو انھوں نے سورہ عصر پڑھ کر سنا دی تو مسیلمہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہنے لگا کہ اس طرح کی سورت تو مجھ پر بھی نازل ہوئی ہے،عمرو نے پوچھا وہ کیا ہے؟تو مسیلمہ نے کہا:((یا وبر یا وبر انما  انت اذنان و صدر،و سائرک حقر نقر) اے وبر وبر تیرے دوکان اور ایک سینہ  ہے اور باقی تیرا سارا جسم حقیر ،بے ہنگم اور بے ڈول ہے"پھر اس نے پوچھا :تمھاری رائے کیا ہے؟تو عمرو نے اسے جواب دیا :اللہ کی قسم۱ تو  جانتا ہے کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔"
ابوبکر خرائطی نے بھی اپنی مشہور و معروف کتاب مساویء الاءخلاق کی دوسری جلد میں اس واقعے کو قریبا اسی طرح بیان کیا ہے۔وبر ایک چھوٹا سا جانور ہے جو بلی سے مشابہت رکھتا ہے،اس کے جسم کا بڑا حصہ دو کانوں اور سینہ پر مشتمل ہوتا ہے۔اور باقی حصہ بہت چھوٹا اور بد صورت ہوتا ہے،مسیلمہ نے یہ اول فول بک کر قرآن کا مقابلہ کرنا چاہا تھا مگر اس سے تو شخص بھی قائل نہ ہوا جو اس وقت ابھی بتوں کا پجاری تھا۔"
امام طبرانی نے عبداللہ بن حصین ابو مدینہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہءاکرام میں سے دو شخص جب بھی آپس میں ملاقات کرتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ایک دوسرے کو مکمل سورہ عصر سنا نہ دیتے اور پھر ایک دوسرے کو سلام کہہ کر رخصت ہو جاتے"امام شافعی فرماتے ہیں کہ لوگ اگر اس سورت پر غور کریں تو ہدایت و رہنمائی کےلیے یہ کافی ثابت ہو۔"[19]
تعارف ۔۔امام شافعیؒ
امام شافعی کے فقہی مسلک کو مذہب شافعی کہتے ہیں۔ آپ کا نام محمد بن ادریس الشافعی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سال وفات اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا سال ولادت ایک ہے یعنی آپ 150ھ میں فلسطین کے ایک گاؤں غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زمانہ بڑی تنگدستی میں گزرا، آپ کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 7 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا، 15 برس کی عمر میں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی تھی۔ آپ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر مسائل حل کرنے کے لئے اور برکت حاصل کرنے کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔ آپ امام مالک کی شاگردی میں رہے اور ان کی وفات تک ان سے علم حاصل کیا۔ آپ نے اصولِ فقہ پر سب سے پہلی کتاب ’’الرسالہ‘‘ لکھی ’’الام‘‘ آپ کی دوسری اہم کتاب ہے۔ آپ نے مختلف مکاتیب کے افکار و مسائل کو اچھی طرح سمجھا اور پرکھا پھر ان میں سے جو چیز قرآن و سنت کے مطابق پائی اسے قبول کر لیا۔ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا تھا اس پر قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل بحث کرتے۔ آپ صحیح احادیث کے مل جانے سے قیاس و اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔ آج بھی مصر، لبنان، شام اور فلسطین میں شافعی مسلک کے پیروکار موجود ہیں۔ آپ کے مقلد شافعی کہلاتے ہیں۔ آپ نے 204ھ میں مصر میں وفات پائی۔

باب نمبر ۲
سورہ عصر اور امام شافعی ؒ کا قول
(اگر لو گ اس میں تدبر کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہو)
              فصل اول:سورہ عصر کی تفسیر
بسم الله الرحمن الرحیم
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِینَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
عصر کی قسم!بے شک انسان خسارے میں ہیں،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور آپس میں ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔"
زمانہ کیا ہے؟
التبیان القرآن میں ہے۔
"زمانہ بہت عجیب وغریب چیزوں پر مشتمل ہے۔اس میں خوشی اور غم کا ،صحت اور بیماری کا،خوش حالی اور تنگ دستی کا، ظہور ہوتا ہے۔عقل حیران ہے کہ زمانے کو موجود کہے یا معدوم کہے۔معدوم اس لیے نہیں کہہ سکتی کہ زمانہ سال،مہینہ،دن اور گھٹوں پر مستمل ہوتا  ہے۔اور زمانہ کم اور زیادہ ہوتا ہے۔اور جو چیز اس طرح ہو وہ معدوم نہیں ہو سکتی۔اور موجود اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ زمانہ حال،ماضی یا مستقبل ہوتا ہے۔وہ موجود نہیں ہوتا۔اور مستقبل ابھی آیا نہیں۔وہ بھی موجود نہین ہے۔اور رہا حاضر تو  وہ ناقابل تقسیم ہے۔"[20]
تفسیر معانی القرآن میں ہے۔
"زمانے سے مراد شب وروز کی یہ گرش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے۔رات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہےاور دن طلوع ہوتا ہے۔تو ہر چیز روشن ہو جاتی ہے۔علاوہ ازیں کبھی رات لمبی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے۔علاوہ ازیں کبھی رات لمبی اور کبھی دن چھوٹا ہو جاتا ہے۔زمانے کا یوں گزرنا اللہ کی قدرت اور کاریگری پر دلالت کرتا ہے۔"[21]
معالم التنزیل میں  عصر کی تفسیر میں مندرجہ ذیل اقوال نقل کیے گے ہیں۔
"العصر یعنی "وقت "سے مراد دہر اور زمانہ ہے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہے رب عصر کی قسم!ابن کیسان نے کہا :اس سے مراد  دن اور رات ہیں۔حسن بصریؒ نے کہا اس سے مراد زوال سمش سے لیکر غروب شمس تک کا وقت ہے۔قتادہ نے کہا:اس سے مراد دن کی ساعات میں سے آخری ساعت ہے۔مقاتل نے کہا :اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔کیونکہ وہ صلٰوتہ وسطیٰ ہے۔"[22]
زمانے کی قسم کھانے کی وجوہ:
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں۔
گزرتے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ جو زمانہ گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں ایک طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں مشغول رہتے ہیں یہ سب کچھ اسی محدود عمر میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہ وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ “میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر کا مطلب۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے اس کو اگر ضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں صرف کر ڈال جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے[23]
تفسیر سعدی میں ہے۔
"اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے۔جو گردش شب و روز کا نام ہے۔جو بندوں کے اعمال اور ان کے افعال کا محل ہے۔کہ بے شک انسان خسار ے میں ہےخا سرنفع اٹھاے والے کی ضد ہے۔خسارے کے متعدد اور متضادات مراتب ہیں۔کبھی خسارا نطلق ہوتا ہے۔جیسے اس شخص کا حال جس نے  دنیا اور آخرت کا میں خسارہ اٹھایا س،جنت سے محروم ہوا۔اور جہنم کا مستحق ہوا۔کبھی خسارا اٹھانے والا ایک پہلو سے خسارے میں رہتا ہے۔کسی دوسرے پہلو سے خسارے میں نہیں رہتابناء بریں اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ہر انسان کے لیے عام قرار دیا ہے۔"[24]
التبیان القرآن میں ہے۔
"لوگوں کو عادت ہے کہ ان پر مصائب آتے ہیں یا ان کو جو نقسان ہوتا ہے اس کو زمانے سے منسوب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر یہ ظاہر فرمایا کہ زمانہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔اس میں کوئی عیب نہیں۔عیب تو انسان میں ہے۔وہ اپنے عیبوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے۔اور اس نقسان کی نسبت زمانہ کی طرف کر دیتا ہے۔
زمانہ گزرنے سے انسان کی عمر کم ہوتی رہتی ہے۔اگر وہ اس زمانہ میں نیک کام نہیں کرے گا  تو اس کو سراسر نقسان ہوگا۔،اس لیے اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر فرمایا:بے شک ہر انسان ضرور نقسان میں ہے۔سوائے ان لوگون کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے۔[25]
زمانے کی قسم کھانے کی وجوہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کیونکہ اگر اس سے مراد نماز عصر مراد لی جائے تو عصر کی نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے جبھی اس کی قسم کھا کر اس کو بتایا گیا۔
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ (البقرہ:۲۳۸)
رسول اللہ ﷺ نے بھی عصر کی نماز کی بہت اہمیت بیان کی ہے،
"حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل اور مال ہلاک ہو گیا۔"اسے بخاری،مسلم،نسائی،ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ نے ایک ابر ؤلود دن میں فرمایا:عصر کی نماز جلدی پڑھ لو،کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہوگئی ،گویا اس کے مال اور اہل ہلاک ہو گیا۔"(مسند احمد)
امام فخرالدین رازیؒ "زمانے کی قسم کھانے کی وجوہ :پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"انسان خسارے سے الگ نہیں ہو سکتا کیونکہ خسارے کا معنی ہے اصل مال کا ضائع ہو جانا اور انسان کا اصل مال اس کی عمر ہے۔اور وہ بہت کم اپنی عمر کے ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔کیونکہ انسان کے اوپر جو ساعت بھی گزری ہے اس سے اگر وہ گناہوں میں مصروف ہے۔تو  اس کے نقصان میں کوئی شک نہیں۔اگر اس کی ساعت مباح کاموں میں گزری  ہے تو وہ جس کیفیت سے عبادت کر رہا ہے۔اس سے عمدہ اور اعلیٰ کیفیت سے  عبادت کر رہا ہے۔اس سے عمدہ اور اعلیٰ کیفیت سے بھی عبادت کرنا ممکن ہے۔کیونکہ خشوع اور خضوع کے درجات غیر متناسب ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جلال  اور قہر کے مراتب بھی غیر متناسب ہیں۔تو انسان کو  اللہ تعالیٰ کی جس قدر زیادی معرفت ہوگی۔اتناہی اسے اللہ کا خوف ہو گا۔وہ اتنی زیادہ تعظیم سے اس کی بادت کرے گا۔ساور اعلیٰ عبادت کو ترک کرنا اور ادنیٰ عبادت کو اختیار کرنا بھی ایک قسم کا نقسان ہے۔پس واضح ہو گیا کہ ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے خسارے اور نقصان میں مبتلا ہے۔
اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے۔کہ ہر انسان اصل میں خسارے اور نقسان میں مبتلا ہے۔کیونکہ انسان کی سعادت اس میں ہے۔ کہ وہ  آخرت سے محبت رکھے اور دنیا سے اعراض کرے۔اور وہ اسباب جو آخرت کے محرک اور داعی ہیں۔وہ  غیرظاہراور مستور  ہیں  اور وہ اسباب جو دنیا کی محبت کے داعی ہیں ۔وہ ظاہر ہیں۔وہ انسان کے حواس خمسہ اور شہوت اور غضب ہیں۔اس وجہ سے زیادہ لوگ دنیا  کی حرص اور ہوس کی طلب میں مستغرق ہیں۔اس لیے سب لوگ خسارے اور نقسان میں ہیں۔سوائے مومنین صالحین کے۔"[26]
زمانے کو گالی دینے کی ممانعت:
تفسیر المنیر میں ہے
"لذا قال ﷺ فیما اخرجہ مسلم عن ابی ہریرہ:لا تسبو الدھر،فان اللہ ھو الدھر"۔[27]
"زمانے کو گالی مت دو ،پس اللہ ہی زمانہ ہے"

و حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَقُولُ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ فَلَا يَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ فَإِنِّي أَنَا الدَّهْرُ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَهُ فَإِذَا شِئْتُ قَبَضْتُهُمَ[28]

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ کہتا ہے ہائے زمانے کی ناکامی پس تم میں سے کوئی یہ نہ کہے ہائے زمانے کی ناکامی کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں میں اس رات اور دن کو بدلتا ہوں اور جب میں چاہوں گا ان دونوں کو بند کر دوں گا۔"
فصل دوئم:
خسارہ اور اس  کے اسباب و محرکات:
اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ حقیقت پوری طرح واضح فرمائی ہے کہ دنیا میں اس کے احکامات کی پاسداری کا نتیجہ ابدی سعادت ہے۔ اس کے برعکس، ہدایات الٰہی سے روگردانی انسان کی زندگی کو تلخ بنا دیتی ہے ۔ اﷲ احکم الحاکمین نے قرآن مجید میں بارہا مقامات پرانسان کو خسارے کے اسباب اور نقصانات سے آگاہ فرمایا ہے پھر اس پرمستزادانسان کو اس خسارے سے محفوظ رہنے کے ذرائع کےبارے میں بھی مطلع کیا ہے۔ درج ذیل سطور میں اختصار کے ساتھ خسارے کے حقیقی اسباب، نتائج اور اس سےبچنےکےطریقےقلمبندکئے گئے ہیں ۔
          خسارہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ خ،س،ر ہے جو کہ اپنے معنی کے اعتبار سے نقصان، گھاٹے وغیرہ پر منطبق ہوتا ہے۔حقیقت میں خسارہ دنیا میں انعامات سے محرومی نہیں بلکہ آخرت میں جنت الفردوس کے حصول میں ناکامی، دیدار الٰہی سے محرومی اصل خسارہ اورنقصان ہے۔فرمان ربانی ہے:                       
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ                  ’’جو (خوش قسمت) آگ سے بچایا گیا جنت میں داخل کر دیا گیا حقیقت میں کامیاب وہی ہے۔‘‘ (آل عمران185)
خسارہ کے اسباب
اﷲ کی ذات ،صفات ، افعال میں کسی بھی چیز کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے اور شرک ہی انسان کے لئے دنیا و آخرت میں خسارےکابنیادی سبب ہے جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے:
وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
اور بلا شبہ آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف ، جو آپ سے پہلے ہوئے (یہ) وحی کی گئی کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ
کے اعمال ضرور ضائع ہو جائیں گے اور آپ ضرور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
 (زمر65)
امام ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ (خسارہ)اس لئے ہے کہ شرک سے آدمی کے نیک عمل ختم ہو جاتے ہیں اور اس کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔‘‘
قیامت ایک اٹل حقیقت ہے۔ روز حشر رب تعالیٰ کے حضور پیشی کا یقین رکھنا لازمی امر ہے لیکن جو لوگ اﷲ سے ملاقات اور حشر کے قیام کے منکر ہیں وہ نقصان اور خسارہ پانے والے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّہِ حَتَّی إِذَا جَاء تْہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً قَالُواْ یَا حَسْرَتَنَا عَلَی مَا فَرَّطْنَا فِیْہَا وَہُمْ یَحْمِلُونَ أَوْزَارَہُمْ عَلَی ظُہُورِہِمْ أَلاَ سَاء مَا یَزِرُونَ
بیشک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اﷲ سے ملاقات کو جھٹلایا حتی کہ جب انکے پاس قیامت اچانک آ جائے گی تو وہ کہیں گے
’’ہائےافسوس !ہم سے اس معاملے میں کیسی کوتاہی ہوئی ! اور اپنے بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (انعام31)
الشیخ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو شخص اﷲ کے ساتھ ملاقات کا انکاری ہے وہ خائب وخاسراورہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے۔
یادرکھئے ! قیامت کی تکذیب آدمی کو محرمات کے ارتکاب پر اکساتی ہے اور ہلاکت کا موجب بنے والے اعمال کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
کفر و ارتداد اور اسلام سے روگردانی
انسان اگر کفرو ارتداد کا راستہ اختیار اور اسلام سے اعراض اور پہلو تہی کرے تو یہ قبیح عمل بھی خسارے اور نقصان فی الدارین کا موجب
ہے، جیسا کہ اس امر کی وضاحت اس آیت میں ہے :
الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہِ أُوْلَـئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمن یَکْفُرْ بِہِ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے وہی (حقیقت میں)خسارہ پانے والے ہیں ۔‘‘ (البقرہ121)
دوسرے مقام پر ارشاد رب العالمین ہے:
وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
جو شخص ایمان کا انکار کرتا ہے اس کے اعمال ضائع ہو گئے (جبکہ) روز قیامت وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘(المائدہ5)
الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی فرماتے ہیں کہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو قیامت کے روز اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کےبارے میں سخت خسارہ میں ہوں گے اور ابدی بدبختی ان کا نصیب، جبکہ جنت سے محرومی ان کا مقدر ہو گی۔
شیطان انسان کا ازلی و ابدی دشمن ہے جس کی عداوت اظہر من الشمس ہے مگر افسوس کہ مسلمان زیادہ تر اسی شیطان کو ہی اپنا دوست بناتاہے اس کے کہنے پر برے اعمال انجام دیتا ہے بالآخر یہی روش انسان کو خاسرین کی صف میں لے جاتی ہے ۔ رب العزت کا فرمان ذیشان ہے :
وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیْناً
اور جو شخص اﷲ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنا لے تو وہ یقیناً کھلے نقصان میں جا پڑا۔‘‘ (النساء119)
الشیخ السعدی فرماتے ہیں ’’جو بد بخت دین و دنیا کے خسارے میں پڑ جائے اور جسے اس کے گناہ ہلاک کر کے رکھ دیں اس سے زیادہ واضح اوربڑا خسارہ کیا ہوسکتا ہے وہ ہمیشہ رہنے والی جنت کی نعمتوں سے محروم ہو کر بدنصیبی میں مبتلا ہو گئے۔ اس کی غماضی یہ آیت کرتی ہے:
اسْتَحْوَذَ عَلَیْْہِمُ الشَّیْْطَانُ فَأَنسَاہُمْ ذِکْرَ اللَّہِ أُوْلَئِکَ حِزْبُ الشَّیْْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّیْْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُونَ
’’ان پر شیطان غالب آ گیا ہے پھر اس نے انہیں اﷲ کے ذکر سے غافل کر دیا یہ لوگ شیطان کے گروہ ہیں خبردار! یاد رکھئے کہ شیطانی گروہ ہی خسارہ پانے والا ہے۔‘‘ (المجادلہ19)
اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہ رکھنا اور بد ظنی سے کام لینا بھی خسارے کا باعث اور نقصان فی الدارین کا موجب ہے اﷲ رب العزت کافرمان ہے :
وَذَلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنتُم بِرَبِّکُمْ أَرْدَاکُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنْ الْخَاسِرِیْنَ
’’اور تمہارا یہی(برا) گمان جو تم نے اپنے رب کے بارے میں کیا ، اسی نے تمہیں ہلاک کیا چنانچہ تم خسارہ پانے والوں میں سےہوگئے۔‘‘(حم السجدہ23)
سیدنا حسنؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’خبردار ! لوگ اﷲ پر اپنے گمان کے مطابق اعمال کرتے ہیں مومن و موحد آدمی کا اﷲ
کے ساتھ گمان اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اعمال صالحہ میں سبقت لے جاتا ہے اور کافر و منافق چونکہ رب اﷲ تعالی کے ساتھ بد ظن ہوتے ہیں اس لئے بد عملی کے عادی ہیں ۔‘‘
اﷲ کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرنا انسان کو عظیم خسارہ سے دوچار کر دیتا ہے ۔ فرمان رب العزت ہے:
الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولَـئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ
’’جو لوگ اﷲ کا عہد پکا کر لینے کے بعد اسے توڑتے ہیں اور جن (رشتوں ) کو اﷲ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین پرفسادکرتے ہیں وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ (البقرہ27)
تفسیر سعدی میں ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا ہے کہ وہ اﷲ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں آیت میں عہدکالفظ عام ہے اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور انکے رب کے درمیان ہے اور اس کا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں اﷲ رب العزت نے اپنا ایفائے عہد کی سخت تلقین فرمائی، مگر کافر لوگ ان وعدوں کی پرواہ نہیں کرتےان کو توڑتے اور حکم الٰہی سے اعراض کرتے، گمراہی و معاصی کے مرتکب ہوتے ہیں اور آپس کے معاہدوں کا پاس نہیں رکھتے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نافرمان لوگوں کے ساتھ اپنی تدبیر سے انتقام لیتا ہے مگر کچھ بدبخت لوگ پھر بھی تدبیر الٰہی سے بے خوف رہتے ہیں اوررب تعالیٰ کے انتقام سے بچنے کا ذریعہ (احکامات الٰہی پر عمل کرنا) اختیار نہیں کرتے۔ باری تعالیٰ نے ایسے ظالم لوگوں کو نقصان اٹھانےوالے قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
 اَفَاَمِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِج فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ
’’ کیا وہ پھر اﷲ کی تدبیر سے بے خوف ہو گئے ؟ اﷲ کی تدبیر سے بے خوف تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہوں ۔‘‘ (الاعراف۹۹)
دنیا ایک مسافر خانہ، مومن آدمی اس میں دل لگا کر اپنی اصل منزل ( آخرت ) کو بھولتا نہیں ہے ۔ مگر چند قابل ترس لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے دنیاوی معاملات (مال و دولت اور آل و اولاد) میں مشغول ہو کر اپنے حقیقی مقصد کو بھلا دیا ہے۔ یہی لوگ درحقیقت نقصان سے دوچار ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ
’’اے ایمان والو ! تمہارا مال اور تمہاری اولادیں تمہیں اﷲ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کریں گے تو وہی لوگ خسارہ پانےوالےہیں ۔‘‘ (المنافقون9)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو کثرت سے اپنا ذکر کا حکم دیا ہے اور اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مال و اولاد میں ہی مشغول ہو کر نہ رہ جائیں ۔یاد رکھئے جو شخص دنیا کی زندگی اور زیب و زینت ہی کو اپنا مطمع نظر بنانے اور اپنے خالق کی اطاعت اور اس کےذکر سے غافل ہو جائے تو ان کا شمار ان خسارہ پانے والوں میں ہو گا جو قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بھی نقصان وخسارے میں مبتلا کر دیں گے۔"[29]


خسارے سے بچنے کی تدابیر:
سورہ عصر کا اصل موضوع بھی یہی ہے کہ انسان حسارے سے کیسے بچ سکتا ہے وہ کون سی تدابیر ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان فلاح دارین حاسل کر سکتا ہے۔سورہ عصر وہ چار نکاتی ایجنڈا ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہم کنار کر سکتی ہے۔
·        ایمان
·        عمل صالح
·        تواصوا بالحق
·        تواصوا بالصبر
ایمان:
ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا۔ م۔ ن‘‘ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ ایمان کا لفظ بطور فعل لازم استعمال ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ فعل متعدی کے طور پر آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن دینا‘‘۔[30]
کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے۔ گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ کے پاس سے آئے ہوئے احکام کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے۔ ایمان کا موضوع عقائد ہیں۔ اور عقیدہ ’عقد‘ سے ہے جس کے معنی گرہ باندھنے کے ہیں۔ اور اس سے مراد کسی شے کی ایسی تصدیق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ ان حقائق کی بلا شک و شبہ تصدیق کرنا ہے جن کی تعلیم اللہ رب العزت نے بواسطۂ رسالت ہمیں عطا فرمائی۔ محض کسی چیز کا علم آ جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا، اگر ایمان علم ہی سے حاصل ہوتا تو کوئی ان پڑھ مومن نہ ہوتا اور نہ کوئی علم والا کافر ہوتا 

ایمان کے بنیادی ارکان
’’
اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا
::
نساء، 4 : 136 

’’
وہ رسول اس پر ایمان لائے جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہل ایمان نے بھی، سب ہی اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔

اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا 
فرشتوں پر ایمان لانا 
کتابوں پر ایمان لانا 
رسولوں پر ایمان لانا 
یومِ آخرت پر ایمان لانا 
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔ [31]
عمل صالح:
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں
"ایمان کے بعد دوسری  صفت  جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ سالحات اور نیک کاموں  پر عمل کرنا ہے۔صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے۔جس سے نیکی اور بھلائی کی کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی۔لیکن قرآن کی رو سے کوئی بھی عمل  اس وقت تک عمل سالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو۔اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے  جو اللہ اور ا س کے رسولﷺ نے دی ہے۔اسی لیے قرآن مجید میں عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا۔اور اس سورہ(عصر) میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے۔کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر عمل صالح نہیں کہا گیا۔اور نہ عمل بلا ایمان پر اجر کی امید دلائی گئی ہے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقیت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے۔جس کے سادق ہونے کا ثبوت سانسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے۔جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے۔ایمان اور عمل سالھ کا تعلق بیج  اور درخت جیسا ہے۔جب تک بیج زمین میں نہ ہو،کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔لیکن اگر بیج زمین میں ہواور کوئی درخت پیدا نہ ہو رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔اسی بناء پر قرآن میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان اور عمل صالح کریں۔اور یہی بات اس سورت میں بھی کہی گئی ہے۔کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو صفت ضروری ہے۔وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل پیرا ہونا ہے۔"[32]
حق کی وصیت:
تیسری چیز جس کی وجہ سے انسان خسارے سے محفوظ رہے گا۔وہ ہے ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرنا۔مولان مودودی فرماتے ہیں کہ "حق کا لفظ باطل کی ضد ہے۔اور بالعموم دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات خواہ وہ خدا کا حق ہو یا  بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق۔پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کا مطلب یہ کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جا رہے ہوں۔نگر لوگ خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہے ہوں۔بلکہ معاشرے میں یہ روح جاری وساری رہے کہ جہاں کہں بھی باطل سراٹھا ئے ۔"[33]
کسی شخص کو تاکید کے ساتھ موثر انداز میں نصیحت کرنے اور نیک کام کرنے  کا نام وصیت ہے۔مطلب یہ کہ انسان خود ہی راست بازی اور حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے ،بلکہ ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے ،حق پر قا ئم رہنے اور ھقوق ادا کرنے کی تاکید بھی کرتا رہے۔ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے  لیے کافی نہ ہوگا۔خصوصا اپنے اہل وعیال ،احباب اور متعلقین   کے برے اعمال سے غفلت برتنا  ،نجات کا راستہ بند کرنا ہے۔اگرچہ وہ خود کیسے ہی نیک اعمال کا پابند کیوں نہ ہو؟اس لیے قرآن اور حدیث میں ہر مسلمان پر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنے کا فریضہ عائد ہوا ہے۔
صبر کی تلقین:
عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔ خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ جبکہ شکر کے معانی عربی لغت میں اظہارِ احسان مندی، جذبہ سپاس گزاری کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر کا تانا بانا استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے۔ اس وصف کو قائم رکھنا ہی صبر ہے۔ مسلمان کی پوری زندگی صبر و شکر سے عبارت ہے۔ دین اسلام کی ہر بات صبر و شکر کے دائرے میں آجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون ( القصص، 28 : 54)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔‘‘
حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الشکر نصف الايمان والصبر نصف الايمان و اليقين الايمان کله.[34]
’’صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں
"حق  کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچا نے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے۔
وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔اور اس راہ میں جن تکالیف سے ،جن مشقتوں سے ،جن مصائب سے  اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے۔ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کریں۔ان کا ہر فرد  دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے۔کہ وہ ان حالات کو صبر سے برداشت کرے۔"[35]
ضیاء القرآن میں لفظ "تواصوا"پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"یہاں تواصوا کا استعمال  اور اس کا تکرار  بڑا غور طلب ہے۔علامہ ابن منظور لکھتے ہیں
اوصی الرجل ووصاء عہد الیہ العرب)
یعنی کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو کام کی تاکید کرنا،علامہ راغب اس کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں
الوصیتہ:التقدم الی الغیر بما یعل بہ مقتر نابوعظ من قولھم ارض واصیتہ متسلتہ النبات المفردات)کسی کو پندو موعظت پر کام پر ابھارنا،بر انگیختہ کرنا ۔اس کے علاوہ  اس میں تسلسل کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔وہ زمین جس میں مسلسل کاشت ہوتہ رہے۔اور فصلیں اگتی رہیں اسے ارض واصیہ کہتے ہیں۔جوہری نے صحاح اور زبیدی نے تاج العروس میں اس کی یہی تشریح کی ہے۔
اس تحقیق  کی روشنی میں  اس آیت کے جملہ کا مفہوم یہ ہو گا۔کہ حق کو قبول کرنے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرتے وقت  صبر کا دامن  مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین و تاکید کی جا رہی ہے۔ان کے آباواجداد نے ان کو ان امور کے بارے میں جو وصیت کی ہے وہ آنے والی نسلوں کو اس کی وصیت کرتے رہیں۔[36]
خلاصہ کلام:
تفسیر سورہ عصر امام شافعیؒ کے قول "اگر لوگ اس میں تدبر کریں  تو یہی ان کی نجات کے لیے کافی ہو"اس سورہ کی تفسیر سے جو نتیجہ نکلا وہ یہ کہ انسان کو اس دنیا میں اور اس دنیا میں کامیاب و کامران ہونےکے لیے جو امور درکار ہیں وہ چاروں اس میں موجود ہیں۔جن پر عمل پیرا ہو کر انسان کامیابی و کامرانی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔
انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں  جو قومیں ان مذکور چار صفات سے متصف نہیں  رہیں  وہ ناکامی و نامرادی سے دو چار ہوئیں۔نمرود اور فرعون کو پڑھیں۔قوم نوح ،عاد اور ثمود کا مطالعہ کریں۔ہر جگہ اس حقیقیت کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہے۔نمرود اپنے وقت کا بہت بڑا بادشاہ تھا ساری رعایا اس کی فرمانبردار تھی،ملک کی ساری دولت اس کے قبضے میں تھی۔اس کے شاہی خزانے ،سونے چاندی اور مختلف نوادارات سے بھرے ہوئے تھے۔فوج بھی اپنے بادشاہ کے ساتھ وفا کے جذبے سے سرشار تھی۔یہی حال فرعون کا تھا  ان دونوں میں اگر کسی چیز کی کمی تھی تو  صرف یہ کہ  وہ دونوں ان سفات جلیلہ  سے محروم تھے۔جو انسانی فوزوفلاح کے لیے بنیادی حثیت رکھتی ہے۔ان کا انجام کیا ہوا۔ایک مطلق العنان بادشاہ  فرمانروا کو ایک حقیر مچھر نے ہلاک کردیا۔دوسرے کو سمندر کی موجیں خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گئیں۔ان کے حسرتناک انجام پر ایک آنکھ بھی تو نمناک نہ ہوئی۔خس کم جہاں پاک۔قوم نوح ؑ کو جب بپھری ہوئی موجوں نے گھیر لیا  اور وہ سب کے سب غرق ہو گئے۔تو ان ظالموں کی بربادی پر کائنات نے  حمد باری تعالیٰ کے گیت گائے۔
سورہ عصر کا اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ یہی چاروں امور نیکی پر گامزن لوگون اور برائی پر گامزن لوگوں ،دونوں کو کسی نہ کسی حال میں برداشت کرنا پڑتے ہیں۔مثلا ایک چور اگر چوری کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا دل اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ یہ کام منافع بخش ہے اسے کرو تو مفت میں امیر ہو جاو گے۔گویا وہ اس پر ایمان لاتا ہے پھر چوری کرنے کے لیے  ہاتھ پاوں مارتا ہے۔یعنی عمل کرتا ہے جس پر ایمان لایا،پھر جب وہ  جب چوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اپنا ایک حلقہ ء احباب بناتا ہے اپنے جیسے لوگ ڈھونڈتا ہے ان کو اس پیشے کی طرف مائل کرنے کے لیے دلائل دیتا ہے یعننی تواصوا بالحق کی شک پر عمل درآمد کرتا ہے۔پھر اگر وہ چوری کا پیشہ متقلا اپنا لیتا ہے تو ظاہر ہے کبھی نہ کبھی تو پکڑے بھی جانا،نتیجتا جو مار اسے کھانی پڑتی اس پر صبر بھی کرتا ہے۔تو گویا ایک چور کو بھی ان چاروں مراحل سے گزرنا پڑتا تو کیوں نہ انسان حق کی روش اپنا ئیں،انبیاء کے طریقے پر چلیں تاکہ کامیابی اس کا مقدر بنیں۔تاکہ زندگی کے اس کاروبار میں جس کا اصل سرمایہ وقت ہے اس سے قیمتی چہز کوئی اور ہے ہی نہیں ،اس کی قد کریں،سمجھیں اور ان کو مفید کاموں میں لگائیں۔سورہ عصر کا یہی پیغام ہے۔جس پر تدبر کر کے انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔
مصارومراجع:
القرآن الکریم
 السیوطی،جلا ل الدین ،الاتقان فی علوم القرآن،دارالاشاعت اردو بازار کراچی
الدکتور عبداللہ عباس،قاموس الالفاظ القرآن الکریم،مکتبہء دارالاشاعت کراچی
 اصلاحی ،امین احسن ،تدبرقرآن،فاران فاونڈیشن لاہور،۲۰۰۲ء
 نجفی سید صفدر حسین ،تفسیر نمونہ،مصباح القرآن ٹرسٹ،لاہور۔۱۴۱۳ھ
حقانی،ابو محمدعبدالحق،دہلوی،تفسیر فتح المنان المشہور بہ تفسیر حقانی،الفیصل ناشران و تاجران کتب،لاہور،س۔ن
ابن عباس،تفسیر ابن عباس
مودودی،ابوالاعلیٰ،تفہیم القرآن،ترجمان القرآن،لاہور،۱۹۹۹
ابو مرجان مدنی،تفسیر معانی القرآن،پارہ :۳۰،دارالسلام پبلیشرز
آلوسی،ابی فضل شہاب الدین السید محمودالبغدادی،تفسیروح المعانی،مکتبہ امدادیہ ملتان،س۔ن
ابن کثیر،عماالدین،ابوالفداء اسماعیل الدمشقی،تفسیر القرآن العظیم المعروف بہ تفسیر ابن کثیر،دارالقرآن الکریم،بیروت،۱۳۹۳ھ(مترجم)محمد جونا گڑھی،مکتبہ قدوسیہ،۱۹۹۹ء
سعیدی،غلام رسول،التبیان القرآن،فرید بک سٹال لاہور،۲۰۰۷ء
بغوی،حسین بن مسعود،معالم التنزیل،ناشر دار احیاء التراث العربی،بیروت،س۔ن
سعدی،عبدالرحمٰن بن الناصر،تفسیر سعدی،دارالسلام پبلیشرز،س۔ن
الرازی،فخرالدین محمد بن الحسین بن الحسن ابن علی التمیمی البکری الشافعی،التفسیرا لکبیراو مفاتح الغیب،دارالعلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ


[1]  قرآن  کی عظمیتیں اور اس کے معجزے۔۱۱۸۔۱۱۹
[2] التوبہ۹:۸۶
 التوبہ
[4]  التوبہ ۹:۱۲۷
[5] یونس۱۰:۳۸
[6] النور۲۴:۱
 [7] محمد ۴۷:۲
[8]   الاتقان فی علوم القرآن،ج:۱،ص:۱۳۸،۱۳۹
[9]  الدکتور عبداللہ عباس،قاموس الالفاظ القرآن الکریم،ص:۲۶۳
[10]  امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن،ج:۷،ص:۵۳۲،۵۳۳
[11]  تفسیر نمونہ،ج،۲۷،س:۲۶۰
[12]  حقانی،عبدالحق،تفسیر فتح امنان،ج:۷،ص:۲۳
[13]  ابن عباس،تفسیر ابن عباس ،ج:۳،ص:۴۹۳
[14]  مودودی،ابوالاعلیٰ،تفہیم القرآن،گ،۶،ص:۴۴۸
[15]  تفسیر معانی القرآن،پارہ :۳۰،ص:۲۶۲
[16]  تفسیر ابن عباس،ص:۴۹۳
[17]  تفہیم القرآن،ص:۴۴۸
[18]  آلوسی،شہاب الدین،روح المعانی،ص:۶۳۳
[19]  تفسیر ابن کثیر،ص؛۴۴۶
[20]  غلام رسول سعیدی،التبیان القرآن،ص:۹۶۸
[21]  تفسیر معانی القرآن،پارہ،۳۰،ص:۲۶۳
[22]   بغوی،حسین بن مسعود،معالم التنزیل،ج:۵،ص؛۳۰۲
[23]  تفہیم القرآن،ص:۴۴۹
[24]  سعدی،عبدالرحمٰن بن الناصر،تفسیر سعدی،ص:۲۹۷۴،۲۹۷۵
[25]  التبیان القرآن،ص:۶۹۹
[26]  الرازی،فخرالدین،تفسیر کبیر،ج:۱۱،ص:۲۸۰
[27]  تفیسرلمنیر۔ج:۳۰،ص:۳۹۳
[28]  مسلم،باب گفتگو کا بیان،ص:
[29]  http://tehreemtariq.wordpress.com/2013/10/28/%D8%A2%DB%8C%D8%A6%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D8%B3%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D8%B3%DB%92-%D8%A8%DA%86%DB%8C%D8%A6%DB%9201/
[30]  1. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 23
2. زبيدی، تاج العروس من جواهر القاموس، 18 : 23، 24

[31]  بخاری، کتاب الايمان، 1 : 27، رقم :۵۰
[32]  تفہیم القرآن،ص:۴۵۳
[33]  ایضا
[34]   بيهقی، شعب الايمان، 4 : 109، رقم : 4448

[35]  تفہیم القرآن،ص:۴۵۴
[36]  ضیاءالقرآن،س:۶۵۵



الازہری،پیر کرم شاہ،ضیاء القرآن،ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور،کراچی۔پاکستان،مئی ۲۰۱۲ء
کیلانی،عبدالرحمٰن،تیسیرالقرآن،مکتبہ السلام،لاہور،۱۴۲ھ
مسلم،ابی لحسین مسلم بن حجاج القشیری،الجامع الصحیح،الکتب ستہ،دارالسلام للنشر والتوزیع،الریاض،۱۹۹۹ء
وھبہ الزحیلی،التفسیرالمنیر فی العقیدہ  والشریعہ والمنہج،دارالفکر المعاصر،بیروت،۱۴۱۱ھ
پانی پتی،محمد ثناءاللہ تفسیر مظہری (مترجم)سید عبدالدائم جلالی،دارالاشاعت،کراچی،۱۹۹۹ء
 ابن منظور،لسان العرب،داع بیروت ،للطباعتہ والنشر،بیورت،۱۳۷۵ھ
بہیقی،احمد حسن،شعب الایمان،دارالکتب العلمیہ،س۔ن
ابن حجر عسقلانی،سبل السلام(مترجم)عبدالرحمٰن کیلانی،شریعتہ اکیڈمی،اسلام آباد
عبدالعذیز،شاہ،محدث،دہلوی،تفسیر فتھ العزیزالمعروف بہ تفسیر عزیزی،ایچ ایم سعد کمپنی۔کراچی،س۔ن
احمد بن محمد بن عبدالرزاق المرتضیٰ الزبیدی،تاج العروس من جواھرالقاموس،طبعتہ الکویت
http://tehreemtariq.wordpress.com

تبصرے

  1. ما شا ٗ اللہ بہت ہی خوب صورت علمی معلوماتی اور تجزیاتی تفسیر کی گئی ہے جو موجودہ حالات کے تناظر میں حقیقت کی آئینہ دار ہے ایک مومن کی کامل نجات کا وافر سامان موجودہ ہے ابصروا یا اولوالابصاار
    دعاگو اور طالب دعا ڈاکٹر رفیع الدین جھنگ ۰۳۰۱۶۹۹۸۳۰۳

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فقہہ کے ادوار

نصرانیت/عیسائیت/christanity