اشاعتیں

مارچ, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

23 مارچ ایک یاد دہانی ہے۔

تصویر
اس عظیم دن کی یادد ہانی کے پاکستان دنیا کے نقشے پر ثبت ہوگیا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔۔۔پاکستان یعنی پاک لوگوں کی سر زمین،ایک ایسا ملک ،ایک ایسا وطن جہاں اللہ اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی حکمرانی ہوگی۔جہاں امن و امان کا دور دورا ہو گا۔جہاں کوئی عزت،کوئی بیٹی بے آسرا اور بے سہارا نہیں ہوگی۔جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔جہاں دلوں میں کدورتوں اور نفرتوں کی بجائے محبتوں کا آشیانہ ہو گا۔جہاں صرف نماز پڑھی ہی نہیں جائے گی بلکہ نماز قائم ہوگی۔ مگر افسوس صد افسوس کے ایسا نہیں ہوسکا۔اندرونی اور بیرونی میرصادقوں نے اس فصل گل کو پنپنے نہیں دیا۔ہمارا ایٹمی پاور ہونا ایک کمزوری بن گیا۔جوں جوں علم والے زیادہ ہوتے چلے جا رہے تو تو اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا۔ہمارا نظام تعلیم دن بدن بد تر سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔تعلیمی نظام کی اس بدتری نے پوری نسل کا بیڑاغرق کر دیا ہےپاکستان ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کا جی ڈی پی سب سے کم تعلیم کے لیئے وقف ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ میٹرو اور اورنج بس سروس نہ چلائیں۔بلکہ میں یہ بھی کہتی ہوں کہ تعلیم سے اس قوم کے ذہنوں میں لگے زنگ ختم کریں۔تعلیم سے قومیں بنتی اور اجڑتی ہ

دم کی شرعی حثیت

عن عائشہ ‏قالت (امرنی نبی ﷺ  أو امر ان یسترقی من العین) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے  حکم دیا کہ دم کیا کرو۔"                                                                                                                 (صحیح بخاری ،کتاب طب،باب رقیہ العین 10/199/حدیث 5738) عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا:ان رسول اللہﷺ (رای فی بیتہا جاریہ فی وجہھا سفعہ فقال :استرقوا لھا فان بھا النظرتہ) ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز لڑکی کو دیکھا جو نظر بد کی وجہ سے پژ مردہ  ہو گئی تھی۔آپ نے مجھے فرمایا کہ اس کو دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ عن انس قال L رخص اللہ ﷺ فی الرقیہ من العین والحمہ والنملہ) ترجمہ:حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نظر بد اور زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور پہلو کے پھوڑوں  کے دم کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (صحیح مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقیہ من العین والنملہ والحمہ جز 14/184/حدیث 5738) نظر بد کا علاج « لَا رُقْيَةَ اِلاَّ مِنْ عَيْنٍ اَوْ حُمَةٍ » (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غی

ممتاز قادری اور قانون

تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگر د ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: "انشد اللہ رجلا لی علیہ حق فعل ما فعل الا قام" "جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے" آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ: "یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کی