اشاعتیں

جنوری, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

انٹرویو "روبینہ شاہین"کالم نگار ،ریسرچر اور افسانہ نگار

تصویر
سوال نمبر 1تعارف تعلیم کامیابیاں اور شوق وغیرہ روبینہ شاہین نام ہے میرا،زندہ دلان لاہور سے تعلق ہے ،اسلامک اسٹیڈیز میں ایم فل کیا،قرآن مجید ترجمہ تفسیر کورس کیا۔گراف ڈیزائنر بھی ہوں،سیکھنے سکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔انشاء اللہ کتابوں کی بچپن سے رسیا تھی،گھر میں پنجابی ادب وافر مقدار میں موجود تھا سو سب سے پہلے انہی کا مطالعہ کیا۔ہیر وارث شاہ،یوسف زلیخا میں نے اوائل عمری میں ہی پڑھ ڈالیں تھیں۔انٹر کے بعد دینی تعلیم کا آ غاز ہوا،وہاں پہ موجود رائٹنگ سیل سے میری لکھنے کے جراثیم دریافت ہوئے۔تب اخبارات میں لکھنا شروع کیا۔جنگ،نوائے وقت کے اسلامی ایڈیشن میں میرے آرٹیکل چپھتے رہے،اس کے ساتھ ساتھ خواتین میگزین جو کہ لاہور منصورہ سے نکلتا ہے اور عدالت میگزین جو کہ گوجرانوالہ سے شائع ہوتا ہے۔ان دونوں میں کئی سال تواتر سے لکھا۔عدالت میگزین سے بیسٹ رائٹر ایوارڈ بھی ملا۔اسی رائٹنگ سیل کی بطور ادارت فرائض سرانجام دیتے ہوئے ایک مجلہ بھی شائع ہوا،بعد ازاں اس کی چیف ہیڈ کے فرائض سرانجام دیئے۔پنجاب یونیورسٹی سے جب ایم اے کیا تو مقابلہ مضمون نویسی میں میری سیکنڈ پوزیشن تھی۔لکھنے لکھانے کا شوق ت

دعا اللہ سے محبت اور قرب کا زریعہ

تصویر

روشنی کے لیے اندھیروں سے جنگ

تصویر

آئیے کالم نگار بنیں

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین قلم   صرف قلم نہیں ہے یہ علم و آگہی کا وسیلہ ہے۔قلم کی اہمیت ہرزمانے میں    قائم ودائم رہی ہے۔قلم نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے،اور تار تار سسکتی انسانیت   کو زمانے کے سامنے ایسے آشکار کیا کہ خود قلم بھی   رو پڑا،کبھی تدبر وتفکر کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے   اور دماغ و دل کو معطر کر جاتا ہے۔قلم کی شہادت خود قلم بنانے والے نے دے دی اس سے بڑی عظمت کیا ہوگی۔ (والقلم وما یسطرون) "قسم ہے قلم کی جس سے وہ لکھتے   ہیں۔" اسی قلم نے بہت سے قلم کار پیدا کیئے ،جنہیں میں سے ایک کالم نگار بھی ہیں۔کالم نگاری اور قلم کا اٹوٹ انگ کا رشتہ ہے۔کالم نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے،یہ ادب کا حصہ ہے۔صحافت کے بتیس   شبعے ہیں جن میں سے ایک کالم نگاری   ہے   ۔مضمون نویسی اور آرٹیکل    اسی کے ہم نام ہیں ۔ ہماردو دائرہ معارف اسلامی کے مطابق کالم نگاری کی تعریف یہ ہے۔ " کالم نگاری یا   مقالہ نگاری   صحافت   سے جُڑا ایک   پیشہ   ہے، کالم نگار کا کام   اخبارات   و   جرائد   میں مضامین لکھنا ہوتا ہے، ان مضامین میں مضمون نویس اپنے مشاہدات و نظریات کی روشنی میں مختلف موضوعات

رشتہ کیسے تلاش کریں؟

تصویر
تحریر:روبینہ شاہین اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں میں سب سے خوبصورت تعلق اور بندھن اگر ہے تو میاں بیوی کا تعلق ہے۔حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی ان کی بیگم حضرت حوا کی تخیلق یہ بتاتی ہے کہ میاں بیوی کا بندھن کتنا ضروری اور اہم تھا۔ہر نسل ہر دور اور ہر مذہب اور معاشرے نے اس کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا ہے۔بیسویں صدی جہاں بہت آسانیاں لے کر آئی ہے وہاں کچھ ایسی ناگزیر ضرورتوں میں رکاوٹ بھی بنی ہے جن پر بنی نوع انسان کی بقا کا دارومدار ہے۔ان ضرورتوں میں سے ایک ضرورت نکاح ہے۔جس پہ نسل انسانی کی بقا کا دارومدار ہے۔جبکہ موجودہ دور کا المیہ ہے۔نکاح مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور برائی کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی آسان۔  یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں ( 20سے 35 سال کی لڑکیاں )۔   جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے (30سے35سال) ۔ ان 10لاکھ لڑکیوں میں 78فیصد تعلیم یافتہ ہیں ۔اس وقت ہر گھر میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔یونیسیف نے

منی کہانیاں

تصویر

پرشین فالٹ

تصویر
کالم نگار:روبینہ شاہین                          ایران میں قالین بانی کی صنعت آج سے  کئی سو سال پہلے بھی اتنے عروج پہ تھی کہ اگر قالین پہ تالاب کاڑھ دیا جاتا تو اس پر چلنے والا بے اختیار اپنے گھنٹنوں سے شلوار اوپر کر لیتا کہ کہیں پانی میں ڈوب نہ جائے۔۔۔۔وہاں کے کاریگروں نے جب اس فن کو  اتنا مکمل اور پرفیکٹ دیکھا تو  انھوں نے سوچا  کہ یہ ٹھیک  بات نہیں۔۔۔پرفیکشن کے لائق تو  صرف رب کی ذات ہے۔۔۔اس کے بعد انھوں نے قالین کے ایک کونے پر چھید لگانا شروع کر دیا جسے پرشین فالٹ کا نام دیا گیا۔یہ ایک سوچ نہیں ایک فلسفہ ہے۔جو باقاعدہ ایک  اصطلاح  بن گئی۔پرشین فالٹ کی یہ اصطلاع عیاں کرتی ہے کہ پرفیکٹ صرف اللہ کی ذات ہے۔باقی سب خام ہے۔المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا انسان پرفیکشن کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے۔جو کہ ایک  لاحاصل شے ہے۔انسان سوجھ بوجھ والی مخلوق ہے۔اگر وہ یہ  علم رکھتے ہوئے بھی   کہ کمال صرف اللہ کی  ذات کوہے اس کی تگ ودو کرتا ہے تو اسے ذہنی مریض ہی کہا جا سکتا ہے۔ انسان  کے لئے پرفیکٹ کا میدان اگر ہے بھی تو  دنیاوی چیزوں کے حصول اور عیش و عشرت میں نہیں بلکہ ایمان میں ہے۔یقین