اشاعتیں

2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ڈپریشن۔۔علاج و تدابیر

تصویر
ڈپریشن کیا ہے؟   جب موڈ ،خیالات اور انرجی میں حد سے زیادہ تبدیلی رونما ہوجائے تو اسے ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔اسے باوپولر کا بھی کہتے ہیں ۔سادہ الفاظ میں جب انسان کے اندر امید اور خوشی کی جگہ مایوسی اور غم   لے لے تو ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ڈپریشن کے زیادہ یا کم کی مقدار بھی اس کے مایوسی اور غم کی کیفیات پر ہے۔جتنی مایوسی کی مقدار ہوگی اور جتنے لمبے عرصے سے ہوگی اتنا ہی مریض ڈپریسڈ ہوگا۔ قرآن مجید  میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔لا تحزن ۔۔(غم نہ کر)حزن کا مطلب ہے۔رنج و غم کے ہیں۔عام الحزن نبی کریمﷺ کے غم کے سال کو بولا جاتا ہے۔یعنی وہ سال جب آپ ﷺ کے چچا ابوطالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا۔یہ وہ سال ہے جب آپ ﷺ سخت صدمے سے دوچار ہوئے۔ ڈپریشن کی حقیقت ڈپریشن کا تعلق انسان کے اندر سے ہے نا کہ باہر سے۔۔۔جو لوگ کسی چیز سے اپنی خوشی کو منسوب کرتے ہیں وہ لوگ سخت غلطی پر ہیں۔جو بندہ  اپنے آپ کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتا وہ کسی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔اصل میں ان لوگوں کے اندر ایک خلا ہوتا ہے۔کوئی کمی ہوتی ہے۔جسے وہ پیسوں سے تو کبھی انسانوں سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تو ڈپریشن ایک  اندرونی کیف

اقبال اور عصر حاضر

تصویر
برصغیر  کے عظیم فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ کے کلام اور افکار میں نہ صرف گزشتہ صدی بلکہ آنے والی کئی صدیوں کے لئے زندگی کا  پیغام موجود ہے۔ برصغیر کو اپنی قسمت و خوش بختی پر فخر کرنا چاہئے کہ اس سرزمین پر جنم لینے والے علامہ اقبال مفکر اور شاعرکی حیثیت سے آج تک مسلمانوں کی شان و شوکت کا درخشاں ستارہ بن کر اُفقِ مشرق پر چمک رہے ہیں۔ اُن کی مخاطب پوری مسلمان قوم اور دنیا بھر کے لوگ تھے اسی لئے پیغامِ اقبال میں وسعت، ہمہ گیری اور آفاقیت ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر مغربی دانشگاہوں کی اعلیٰ تعلیم اور مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کے بیشتر بنیادی مسائل اور موضوعات پر غور و فکر کیا۔ وہ زندگی میں حرکت کے قائل تھے اور کائنات کو ایک ایسی حقیقت سمجھتے تھے جو ہر لمحہ اپنی تشکیل نو میں مصروف ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے ”کن فیکون“ اقبال کی نظر تاریخ، اپنے عہد کے انقلابات، مستقبل میں بدلتے حالات، زوال پذیر ہوتے معاشروں ، عروج پاتی قوموں اور وجود میں آتی نِت نئی ایجادات پر تھی۔ وہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے ایک عالمی صداقت

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تصویر
عبدالستار ایدھی ایک عہد ساز،درد دل رکھنے والے ایک پرعزم انسان تھے۔جن کی ساری زندگی خدمت سے عبارت ہے۔ایدھی کا بچپن محرومیوں سے پر تھا۔اپنی والدہ کو بچپن سے دکھی دیکھا۔یہ دکھ عمر بھر ان کا ساتھ رہااور آنکھوں سے چھلکتا رہا۔کراچی کی گلیوں میں نالے پراندے اور غبارے بیچ کر ضروریات زندگی پوری کرنے والے اس بچے نے محرومیوں کو جواز نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت بنا لیا۔بہت کم لوگ اس را ز سے واقف ہوتے ہیں کہ میس کو انرجی میں کنورٹ کیا جا سکتا ہے۔عبدالستار ایدھی نے بچپن سے گر سیکھ لیا اور دکھ درد میں ڈوبے رہنے کی بجائے دوسروں کو دکھ سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ کراچی کی گلیوں میں غبارے بیچتے اس بچے نے  حالات کی تلخیوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔ماں کے آنسووں نے ایدھی کے دل میں اتنی وسعت پیدا کر دی تھی کہ اب ان کو دوسروں کے دکھ بھی اپنے لگتے تھے۔اپنی محرومیوں پہ شکوہ کنا ہونے کی بجائے انھوں نے ایک الگ راستہ چنا۔دکھی سسکتی اور بلکتی انسانیت کے زخموں پہ مرہم رکھنا۔یہ وہ کام ہیں  جو عبدالستار ایدھی نے عبادت سمجھ کر کیا اور تا حیات کیا۔ مریضوں کو ہاتھ سے لے جانے والی گاڑی  سے آغاز کیا۔اللہ نے اس میں اتنی بر

ہمیں مسجد کے مینار کا کرنا کیا ہے!!!!

رات کے پچھلے پہر میری آنکھ ہمیشہ ی طرح مسجد سے بلند ہوتی ہوئی   اسی آواز سے کھلی تھی۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب  فجر کی آذان سے کچھ پہلے وہ ہمیشہ کی طرح لاوڈ اسپیکر پر نعت پڑھ رہا تھا۔ میں لج پالاں دے لڑ لگیاں     میرے توں غم پرے رہندے؎ میری آساں امیداں دے    سدا بوٹے ہرے رہیندے میں اپنے بستر پہ لیٹی ہمیشہ کی طرح  وہ آواز سنتی رہی۔جو رات کے سناٹے اور میرے کمرے کی تاریکی کے ساتھ ساتھ میری نیند کو بھی توڑ رہی تھی۔آواز بھاری خوبصورت اور نعت کی ادائیگی ہمیشہ کی طرح  پر سوز اور پر اثر تھی۔اس بار وہ کئی ہفتوں بعد وہ نعت پڑھ رہا تھا۔اس کے باوجود میری آنکھ جیسے میکانکی انداز  میں،اس آواز کو سنتے ہی کھل گئی تھی۔اور ہمیشہ ہی کھل جاتی تھی۔پھر میں بہت دیر تک بستر پہ لیٹی  بقیہ حمد یا نعت سنتی رہی۔اور یہ کام میں نو عمری سے کر رہی تھی۔اس علاقے میں مختلف فرقوں کی دو تین مساجد ہیں۔پتہ نہیں وہ کس فرقے کی مسجد سے بولتا تھا۔لیکن میں پھر بھی  دن یا رات کے کسی حصے  میں لاوڈ اسپکر پر اس کی گونجنے والی آواز شناخت کر سکتی ہوں۔وہ آدمی یقینا عمر کے آخری حصے میں ہوگا۔کیونکہ اب اس کی آواز بہت زیادہ

23 مارچ ایک یاد دہانی ہے۔

تصویر
اس عظیم دن کی یادد ہانی کے پاکستان دنیا کے نقشے پر ثبت ہوگیا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔۔۔پاکستان یعنی پاک لوگوں کی سر زمین،ایک ایسا ملک ،ایک ایسا وطن جہاں اللہ اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی حکمرانی ہوگی۔جہاں امن و امان کا دور دورا ہو گا۔جہاں کوئی عزت،کوئی بیٹی بے آسرا اور بے سہارا نہیں ہوگی۔جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔جہاں دلوں میں کدورتوں اور نفرتوں کی بجائے محبتوں کا آشیانہ ہو گا۔جہاں صرف نماز پڑھی ہی نہیں جائے گی بلکہ نماز قائم ہوگی۔ مگر افسوس صد افسوس کے ایسا نہیں ہوسکا۔اندرونی اور بیرونی میرصادقوں نے اس فصل گل کو پنپنے نہیں دیا۔ہمارا ایٹمی پاور ہونا ایک کمزوری بن گیا۔جوں جوں علم والے زیادہ ہوتے چلے جا رہے تو تو اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا۔ہمارا نظام تعلیم دن بدن بد تر سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔تعلیمی نظام کی اس بدتری نے پوری نسل کا بیڑاغرق کر دیا ہےپاکستان ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کا جی ڈی پی سب سے کم تعلیم کے لیئے وقف ہے۔میں یہ نہیں کہتی کہ میٹرو اور اورنج بس سروس نہ چلائیں۔بلکہ میں یہ بھی کہتی ہوں کہ تعلیم سے اس قوم کے ذہنوں میں لگے زنگ ختم کریں۔تعلیم سے قومیں بنتی اور اجڑتی ہ

دم کی شرعی حثیت

عن عائشہ ‏قالت (امرنی نبی ﷺ  أو امر ان یسترقی من العین) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے  حکم دیا کہ دم کیا کرو۔"                                                                                                                 (صحیح بخاری ،کتاب طب،باب رقیہ العین 10/199/حدیث 5738) عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا:ان رسول اللہﷺ (رای فی بیتہا جاریہ فی وجہھا سفعہ فقال :استرقوا لھا فان بھا النظرتہ) ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز لڑکی کو دیکھا جو نظر بد کی وجہ سے پژ مردہ  ہو گئی تھی۔آپ نے مجھے فرمایا کہ اس کو دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ عن انس قال L رخص اللہ ﷺ فی الرقیہ من العین والحمہ والنملہ) ترجمہ:حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نظر بد اور زہریلے جانوروں کے کاٹنے اور پہلو کے پھوڑوں  کے دم کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (صحیح مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقیہ من العین والنملہ والحمہ جز 14/184/حدیث 5738) نظر بد کا علاج « لَا رُقْيَةَ اِلاَّ مِنْ عَيْنٍ اَوْ حُمَةٍ » (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غی

ممتاز قادری اور قانون

تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگر د ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا: "انشد اللہ رجلا لی علیہ حق فعل ما فعل الا قام" "جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے" آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ: "یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کی

ممتاز قادری۔۔حب رسولﷺ کے لیئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والا عظیم سپاہی

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ایسے سنہر ی کارناموں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی نبی کریمﷺ کی ذات بابرکت کے شان میں گستاخی کی گئی  ،ہر طبقہ فکر کے لوگ اس کے لیئے حق کا علم لے کر اٹھ کر کھڑے ہوئے۔غازی علم دین شہید ،عامر چیمہ ۔ممتاز قادری برصغیر کے مسلمانوں کےعشقِ مصطفیٰ کی تابندہ روایت کے امین ہیں۔ انکے طریقِ کارسے اختلاف لیکن ان کے نظرئیے کے صدقے.. 29 فروری 2016ء صبح  چار بجے ممتاز قادری کو سلیمان تاثیر کے قتل کے جرم پھانسی دے دی گئی۔وہ سلیمان تاثیر جس نے بیان دیا تھا کہ نبی کریمﷺ کے تحفظ کے لیئے بنایا جانے والا قانون "کالا قانون"ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریمﷺ کے ذات کا تحفظ  تمام حقوق سے اعلیٰ اور افضل ہے۔فرمان مصطفیٰﷺ  کا مفہوم ہےکہ"تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں تمہیں تہماری ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔"ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحفظ رسالت ام الحقوق ہے۔یعنی تمام حقوق کی ماں  اور بحثیت مسلمان تمام حقوق پہ مقدم ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی پر پاکستان میں تین طرح سے احتجاج ہو رہا ہے۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ سلمان تاثیر اسی لائق تھا۔جبکہ دوسرا طبقہ اس کے خلاف  اورسلی

ممتاز قادری۔۔حب رسولﷺ کے لیئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والا عظیم سپاہی

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ایسے سنہر ی کارناموں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی نبی کریمﷺ کی ذات بابرکت کے شان میں گستاخی کی گئی  ،ہر طبقہ فکر کے لوگ اس کے لیئے حق کا علم لے کر اٹھ کر کھڑے ہوئے۔غازی علم دین شہید ،عامر چیمہ ۔ممتاز قادری برصغیر کے مسلمانوں کےعشقِ مصطفیٰ کی تابندہ روایت کے امین ہیں۔ انکے طریقِ کارسے اختلاف لیکن ان کے نظرئیے کے صدقے.. 29 فروری 2016ء صبح  چار بجے ممتاز قادری کو سلیمان تاثیر کے قتل کے جرم پھانسی دے دی گئی۔وہ سلیمان تاثیر جس نے بیان دیا تھا کہ نبی کریمﷺ کے تحفظ کے لیئے بنایا جانے والا قانون "کالا قانون"ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریمﷺ کے ذات کا تحفظ  تمام حقوق سے اعلیٰ اور افضل ہے۔فرمان مصطفیٰﷺ  کا مفہوم ہےکہ"تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں تمہیں تہماری ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔"ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحفظ رسالت ام الحقوق ہے۔یعنی تمام حقوق کی ماں  اور بحثیت مسلمان تمام حقوق پہ مقدم ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی پر پاکستان میں تین طرح سے احتجاج ہو رہا ہے۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ سلمان تاثیر اسی لائق تھا۔جبکہ دوسرا طبقہ اس کے خلاف  اورسلی

ª!ª قانون توہین رسالت قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ª!ª

دین اسلام میں تمام کے تمام قوانین اللہ ہی کے بنائے ہوئے ہیں مگر بعض کا بیان قرآن و سنت میں بہت واضح ہے اور بعض کے لیے خود اسی قرآن و سنت کے اصولوں کے تحت اخذ و استنباط کے مراحل ہیں کہ جن میں اگر اختلاف کی گنجائش ہے تو اس کا تعلق اخذ و استنباط کے مراحل میں فہم انسانی کے اعتبار سے تو ہوسکتا ہے مگر اصلا نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت سے تمام تر قوانین فقط محکمات کی بنیاد پر اخذ نہیں کیئے جاتے بلکہ مختلف اصول ضوابط کی تحت اخذ کیئے جاتے ہیں اور وہ اصول ضوابط بھی خود قرآن و سنت سے ہی ماخوذ ہیں لہذا قرآنی اَحکام کا بیان و اِستنباط کہیں  ’عبارۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِشارۃُ النّص‘ سے، کہیں ’دلالۃُ النّص‘ سے ہوتا ہے اور کہیں ’اِقتضاء النّص‘ سے۔ کہیں اُس کا انداز ’حقیقت‘ ہے، کہیں ’مجاز‘، کہیں ’صریح‘ ہے، اور کہیں ’کنایہ‘۔ کہیں ’ظاہر‘ ہے، کہیں ’خفی‘، کہیں ’مجمل‘ ہے، اور کہیں ’مفسر‘۔ کہیں ’مطلق‘ ہے، کہیں ’مقید‘، کہیں ’عام‘ ہے اور کہیں ’خاص‘۔  اَلغرض قرآنی تعلیمات مختلف صورتوں اور طریقوں میں موجود ہیں۔ اُن میں اصل اَحکام (substantive laws) بھی ہیں اور ضابطہ جاتی اَحکام (procedura